ماں: قربانی، دعا اور محبت کی خاموش داستان، محبت، قربانی اور خلوص سے بھری یہ داستان ہر اس ماں کی نمائندہ ہے جو خاموشی سے دنیا بدلتی ہے، بغیر کسی صلے یا تعریف کے۔
کالم نگار: عروج خان
پشاور کے مضافاتی گاؤں میں ایک چھوٹے سے کچے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ایک ضعیف خاتون، جن کی آنکھوں میں روشنی مدھم ہو چکی ہے، مگر خواب آج بھی روشن ہیں۔ ان کا نام ہے سعدیہ بی بی۔ وہ کوئی مشہور شخصیت نہیں، نہ کسی ایوارڈ یافتہ خاتون کا لقب رکھتی ہیں، مگر ان کی کہانی ہزاروں ماؤں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ وہ ماں ہے جس نے خاموشی سے قربانیوں کے پہاڑ کھڑے کیے، اپنی خوشیاں وقف کرکے، اپنے بچوں کو کامیاب بنا کر، محبت کو دعاؤں کی شکل میں پرویا۔
سعدیہ بی بی، پشاور کے نواحی گاؤں کی ایک سادہ مگر غیر معمولی ماں ہیں۔ انہوں نے محدود وسائل اور سادہ طرزِ زندگی میں اپنے پانچ بچوں کی ایسی پرورش کی کہ آج ایک بیٹا ڈاکٹر، دوسرا استاد، تیسرا آرمی آفیسر، اور دونوں بیٹیاں کامیاب اور خودمختار ہنرمند خواتین بن چکی ہیں۔
سعدیہ بی بی کی شادی بیس سال کی عمر میں ہوئی۔ ان کے شوہر، گل نواز، ایک تعمیراتی مزدور تھے۔ روز کام ملتا تو چولہا جلتا، ورنہ شام فاقے میں گزرتی۔ شادی کے چند ہی برسوں میں پانچ بچوں کا بوجھ کندھوں پر آ گیا۔ غربت نے کبھی خواب کچلے، تو کبھی مجبوریوں نے نیند چھینی، مگر ماں کا حوصلہ اور عزم زندہ رہا۔
گھر میں نہ پنکھا تھا، نہ ٹی وی، نہ فریج۔ چھت سے ٹپکتا پانی، زمین پر پرانی چٹائی، اور ایک ہی کمرے میں پانچ بچوں کا مستقبل پروان چڑھ رہا تھا۔ مگر سعدیہ بی بی کہتی تھیں:
“میرے لیے یہ جھونپڑی کسی محل سے کم نہیں، بس میرے بچے پڑھ لکھ جائیں، یہی خواب ہے۔”
جب ان کا بڑا بیٹا ساتویں جماعت میں پہنچا تو اسکول کی فیس دینا مشکل ہو گیا۔ گھر میں بیچنے کو کچھ نہ تھا، تو سعدیہ بی بی نے اپنے شادی کے دنوں کے سونے کے چھلے نکالے اور فروخت کر دیے۔ ان کا کہنا تھا:
“اگر میرے زیور بیچ کر بچے زیورِ علم حاصل کر لیں، تو یہ سودا مہنگا نہیں۔”
نہ کوئی اسکالرشپ تھی، نہ مفت تعلیم۔ وہ خود کپڑے سیتی تھیں، روٹیاں پکاتی تھیں، اور بیٹیوں کو ساتھ سلائی کڑھائی سکھاتی تھیں۔ ان کا ماننا تھا:
“بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں، اگر انہیں ہنر دیا جائے تو وہ روشنی بن جاتی ہیں۔”
ایک وقت ایسا بھی آیا جب سعدیہ بی بی کو شدید بیماری نے گھیر لیا۔ ڈاکٹروں نے دل کی کمزوری اور شوگر کی سختی سے نگرانی تجویز کی۔ دوائیں مہنگی تھیں، مگر چھوٹے بیٹے کی بورڈ فیس دینی تھی۔ انہوں نے دواؤں سے اجتناب کیا اور بیٹے کی تعلیم کو ترجیح دی۔
شوہر کے اعتراض پر وہ مسکرا کر بولیں:
“میں بچ بھی گئی تو کیا؟ اگر یہ بچہ تعلیم سے محروم رہا، تو وہ پوری زندگی ہار جائے گا۔”
آج وہی بچے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ بیٹیاں خودمختار اور باوقار ہنر مند خواتین بن چکی ہیں۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا؟ تو وہ مسکرا کر کہتی ہیں:
“میں نے صرف دعائیں کیں، باقی سب اللہ نے کر دیا۔”
ان کی آنکھیں تب خوشی سے نم ہو جاتی ہیں جب وہ اپنی بیٹی کو سلائی سینٹر چلاتے دیکھتی ہیں، جب بیٹے ڈاکٹر یا فوجی وردی میں گھر آتے ہیں، اور جب چھوٹا بیٹا قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا ہے۔
“میں نے جینا سیکھا نہیں، صرف دینا سیکھا ہے۔” وہ فخر سے کہتی ہیں۔
سعدیہ بی بی جیسی مائیں اس ملک کا اصل چہرہ ہیں۔ نہ میڈیا انہیں دکھاتا ہے، نہ کتابیں ان پر لکھتی ہیں، مگر انہی کی دعاؤں، محنتوں اور خلوص سے یہ معاشرہ قائم ہے۔
ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ ماں خلوص، صبر، قربانی، اور بےلوث محبت کا نام ہے۔ ماں قدرت کا وہ تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
آج کے دن، ہم ان تمام ماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو ہر مشکل، ہر چیلنج کے باوجود اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے خود قربانیاں دیتی ہیں۔
کامیابیاں، عزت، یہ مقام تم سے ہے
خُدا نے جو بھی دیا، مقام تم سے ہے
آخر میں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ماں عظیم ہستی ہے،
بلکہ کہنا چاہیے:
“ماں… اللہ کی وہ رحمت ہے، جو زمین پر ہمیں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔”